سائنس دانوں نے چار ملکوں کے افراد کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد انکشاف
کیا ہے کہ ورزش سے موٹاپا اور وزن کم کرنے میں اس وقت تک کوئی خاص مدد نہیں
ملتی جب تک کھانے میں احتیاط نہ برتی جائے۔ شکاگو کی لایولا یونیورسٹی میں
کیے گئے اس مطالعے میں امریکا کے علاوہ تین مزید ممالک سے رضاکار شریک تھے
جن میں ورزش کرنے اور نہ کرنے والے دونوں طرح کے افراد شامل تھے۔ ایک سال
سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ زائد وزن یا
موٹاپے کے شکار ایسے افراد جنہوں نے ورزش کے ساتھ ساتھ کھانے میں احتیاط
بھی رکھی، انہوں نے اس مدت میں اپنا وزن اوسطاً 50 پونڈ کم کیا جب کہ کھانے
میں احتیاط کے ساتھ سہل پسندی کے عادی لوگوں کے وزن میں نہ تو کوئی خاص
کمی ہوئی اور نہ ہی کوئی نمایاں اضافہ۔ سب سے زیادہ تشویش ناک صورتِ حال ان
لوگوں کے لیے تھی جو روزانہ پابندی سے خوب ورزش تو کرتے تھے لیکن کھانے
پینے میں بھی کوئی احتیاط نہیں کرتے تھے۔ رضاکاروں کے اس گروپ میں ورزش کے
باوجود وزن قابو میں نہیں آیا بلکہ اکثر کا وزن پہلے سے 10 پاؤنڈ بڑھ گیا۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے اس مطالعے کی سربراہ خاتون پروفیسر نے بتایا کہ
موٹاپے اور زائد وزنی
میں مبتلا اکثر لوگ جب ورزش کرتے ہیں تو وہ اس خوش
فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ورزش کا جادوئی اثر ان کا وزن گھٹا دے گا
حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، ورزش کے دوران ہمارا جسم زیادہ حرکت
کرتا ہے جس کے نتیجے میں جسم کو غذا کی بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اور اس طرح
زیادہ بھوک لگتی ہے، بھوک ختم کرنے کے لیے اکثر لوگ وہی روایتی اور چکنائی
سے بھرپور غذائیں خوب استعمال کرتے ہیں جن سے ان کا پیٹ ضرور بھرجاتا ہے
لیکن وزن جوں کا توں رہتا ہے بلکہ بڑھ جاتا ہے۔ اس مطالعے کی روشنی
میں ماہرین ایک بار پھر سے وہی پرانا مشورہ دُہراتے دکھائی دے رہے ہیں کہ
اگر آپ وزن گھٹانے کے لیے ورزش کررہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ ایسی غذا کا
استعمال بھی جاری رکھیں جو وزن نہ بڑھاتی ہو تاکہ جسم اپنی اضافی غذائی
ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے اندر محفوظ کی گئی چربی استعمال کرے اور یوں
آپ کا وزن اور موٹاپا، دونوں ہی کم ہوتے چلے جائیں۔ اس لیے جب تک ورزش کے
ساتھ متوازن اور صحت بخش غذا شامل نہ ہو، تب تک صرف ورزش کی بنیاد پر وزن
کم نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وزن کم کرنے کے معاملے میں صرف ورزش سے
توقعات وابستہ کرنا ایک غلط رویہ ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔